اقتدار کی کرسی میں جہاں طاقت موجود ہے وہی تقاضوں کی بنیاد پر بے بسی بھی موجود ہے اس بے بسی کی ایک مثال پچھلے کچھ دنوں سے زمان پارک کے باہر لگنے والا تماشہ ہے جو عمران خان کے بلاۓ ہوے کارکنان اور پنجاب پولیس کے درمیان چل رہا ہے۔ اس بے بسی ایک شکل اداروں کی جانب سے سیاسی رہنماؤں اور پارٹیوں کیساتھ تفریق کا رویہ بھی ہے۔
عمران خان اگر آج اتنے طاقتور ہے کہ وہ اداروں اور آئینی تقاضوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتے تو اس کی ایک بڑی وجہ انہیں اداروں کی جانب سے 2013 سے دی گئی سپورٹ ہے جس کا ذکر جنرل باجوہ نے کالم نگار جاوید چوہدری سے ایک ملاقات میں کیا۔
عمران خان آج جو کر رہے ہے وہ اگر منظور پشتین ، علی وزیر ، محسن داؤڑ ، آختر مینگل ، رئیسانی یا اس طرح کے باقی رہنما جو بلخصوص بلوچستان اور خیبرپختونخوا (وزیرستان) سے ہے وہ کرتے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ریاست کا پھر بھی یاہی برتاؤ ہوتا؟ کیا غداری کے مقدمے صرف پشتون اور بلوچوں کے لیے ہے کیا عمران خان اور دیگر تحریک انصاف کے رہنما جس میں فواد چوہدری ، شاہ محمود ، عماد اظر ، شیخ رشید جیسے لوگ شامل ہے وہ آئین سے بالاتر ہے یا پھر اداروں کے کچھ لوگوں کا آج بھی تحریک انصاف کے کندھوں پر ہاتھ موجود ہے۔
عمران خان نے اپنے دورِ حکومت میں کئی لوگوں ، سیاست دانوں اور صحافیوں پر جھوٹے مقدمے درج کروائے۔ ان مقدمات میں نامور سیاست دان موجود ہے اس جھوٹے اور انتقامی کارروائیوں میں رانا ثناء اللہ پر درج کیا گیا 15 کلو ڈرگز کا کیس بھی تھا جسکی سزا سزائے موت ہوتی ہے لیکن جوہی عمران خان کی حکومت ختم ہوئی تو تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اس سے ایک ناقابلِ سماعت اور جھوٹا مقدمہ کہلایا۔ رانا ثناء اللہ کی طرح اور دیگر رہنما جس میں شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق اور مریم نواز شریف شامل ہے جو اس طرح کی مقدمات کی زد میں آئے۔ جھوٹے مقدمے ہونے کے باوجود یہ رہنما عدالتوں میں پیش ہوتے رہے اور کئ مہینے جیل میں گزارنے کے بعد یا تو پروڈکشن آرڈر پر رہا ہوۓ یا پھر مقدمات ہی غلط ثابت ہوئی۔ اگر وہ بھی عمران خان کی طرح برتاؤ کرتے اور گرفتاری کے بجاۓ کارکنوں کو اپنی ڈھال بناتےتو پھر عمران کا موقف کیا ہوتا۔ ویسےاس کی مثال بھی موجود ہے قومی اسمبلی کے لانجز میں جمعیت کے چند علماء کو گرفتار کرتے وقت انکے پگھڑیا پینک دی گئی تھی اور پھر چند گھنٹوں بعد ہی ان رہنماؤں کو واپس رہا کرنا پڑا۔ اس وقت کے وزیر داخلہ شیخ رشید نے ان رہنماؤں پھر ریاستی اداروں کی رٹ کو آزمانے کا دعویٰ کیا تھا اور کہا تھا کہ جمعیت کے یہ رہنما پارلمینٹ لانجز میں اپنے ڈنڈہبردار کارکنوں کے ساتھ داخل ہونے۔
عمران خان کا یہ رویہ اس بات کو واضح کرتی ہے کہ عمران خان، ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح ایک فاشسٹ حکمران ہے اور وہ انتشار کی سیاست پر یقین رکھتے اور اسی کی بناء پر ہر وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد اپنے کارکنان کو زمان پارک پہنچنے کی اپیل کرتے ہیں اور یوں گرفتاری کو اپنی توعین اور خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں
نواز شریف نے کئی مہینے جیل میں گزارے اور اسکے بعد ہی وہ اپنی ہوشیاری کی بنا پر ملک سے نکل گئے تاکہ وہ مزید عمرانی فروعنیت سے بچ سکے ۔ نواز شریف کے نااہلی میں ملک کے تمام اداروں نے اپنا حصہ ڈالا اور یوں انکی اہلیت ختم کر دی گئی۔ اگر یاہی رویہ عمران کے ساتھ نہ رکھا جائے جو انہی اداروں کی پیدائش ہے تو پھر ملک میں آئینی مظبوطی کیسے ممکن ہو سکتی ہے۔ عمران خان کو کل لاہور کی عدالت نے 9 مقدمات میں حفاظتی ضمانت دی ہے۔ یہ ضمانتیں زمان پارک کے باہر پولیس اہلکاروں پر تشدد اور پٹرول بم پھینکے کے بعد ملی ہے۔
عمران خان کے ساتھ حالیہ نرمی اس بات کا ثبوت ہے کہ ملکی ادارے نہ صرف اپنے ہی تقاضوں کو پورا کرنے میں کمزور ثابت ہوئی ہے بلکہ انکی سیاسی صورت آج بھی موجود ہےاور سیاسی انجینرنگ آج بھی ہوتی ہے
دو دن پہلے ہی خیبرپختونخواہ کے علاقے میں ڈرون حملا ہوا جس کا شکار دو کمسن بچے بنے۔ دوسری طرف آج بھی وزیرستان اور بلوچستان میں آپریشنز ہو رہے جو آۓ دن خبروں کی زینت بنتے ہیں۔ ان آپریشنز میں مارے جانے والوں کو دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے بنا انکی کوئی شناخت بتاۓ۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ آج بھی کہی پشتون اور بلوچ افراد لاپتہ ہے اور اس طرح کے جھوٹے آپریشنز میں ہلاک کئے جا چکے ہے۔ جب منظور پشتین نے ان اقدامات کے خلاف آواز بلند کی تھی اور اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا تو انہیں غدار ٹھہرایا گیا اور آج بھی کسی بھی میڈیا چینلز کے پروگرام کا حصہ نہیں بن سکتے۔ دوسری طرف عمران خان کے خطاب پر بھی کئ دفعہ پابندی عائد کردی گئی لیکن پھر عدالتوں نے جلد ہی ان پابندیوں کو ختم بھی کر دیا۔ منظور پشتین پر پابندی آج بھی عائد ہے اور یاہی ریاستی اداروں کی جانب سے تفریق کی واضح مثال ہے
حالیہ دنوں کی بات کی جائے تو عمران خان نے پچھلے دو دنوں میں 70 کے لگ بھگ پولیس اہلکار کو نہ صرف اپنے کارکنان سے پتھراؤ کا نشانہ بنایا بلکہ پٹرول بم اور گاڑیوں کو آگ بھی لگائی گئی لیکن اب تک نہ عدالت عمران خان کے اس برتاؤ کے خلاف کوئی فیصلہ دے سکی اور نہ ہی ادارے انہیں اس انتشار کی کیفیت پیدا کرنے پر گرفتار کر سکی۔
عمران کی انتشار کی سیاست کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ 2014 کے دھرنے کے دوران بھی عمران خان نے اپنے کارکنان کے استعمال سے مختلف اداروں پر حملے کئے اور بنا کوئی سزا پاۓ گھر کو چلے گئے ۔ اداروں کا یہ رویہ باقی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ دیکھنے کو نہیں ملتا بلخصوص اگر وہ بلوچستان یا پھر خیبرپختونخواہ سے تعلق رکھتے ہوں۔