انسانی حقوق تنظیم کا انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے حالیہ تشدد آمیز واقعات سےمتعلق بیان کا جواب
ایرانی عوام امریکا کی طرف سے وسیع، ظالمانہ اور یکطرفہ طور پر ٹھونسی گئی ایسی پابندیوں کا شکار ہیں جن سے عالمی انسانی حقوق کی اقدار مٹ جاتی ہیں اور انکی زد میں معاشرے کے سب سے زیاده متاثر ہونے والے افراد، جیسا عورتیں بچے بوڑھے اور وه لوگ آتے ہیں جنہیں صحت و علاج کی خدمات اور دواؤں اور غذا کی ضرورت
اسلام آباد: (جی این پی) 3 دسمبر2019 : اسلامی جمہوریہ ایران کی انسانی حقوق تنظیم نے ہائی کمیشنر انسانی حقوق اور کچھ وقایع نگاروں کی حالیہ متشدد واقعات کی رپورٹ کے جواب میں مندرجہ ذیل بیان جاری کیا ہے:
انسانی حقوق تنظیم نے ہائی کمشنر انسانی حقوق اور کچھ وقایع نگاروں کی حالیہ متشدد واقعات کی رپورٹ کے جواب میں واضح کیا ہے کہ: پر واضح ہے اسلامی جمہوریہ ایران احتجاج کو عوام کا حق سمجهتی ہے اور پر امن احتجاج کو تسلیم کرتی ہے. احتجاجی جلسوں سے متعلق واضح اور ریلیف اور ضمانت پر مبنی قوانین و ضوابط بهی وضع کر رکهے ہیں. لیکن ہنگامہ کرنے والوں اور امریکا اور دوسرے ممالک کی مداخلت و انتظام کے زیر اثر مسلح اقدامات کے ذریعہ معصوم شہریوں کا قتل عام، لوگوں کی املاک کو تباه کرنے، بنکوں اور دوسری عمارتوں کو جلانے اور لوٹ مار کرنے کا ارتکاب کرنے والوں کا حساب بالکل الگ بات ہے.
انسانی حقوق تنظیم کے بیان میں کہا گیا ہے که اسلامی جمہوریہ ایران نے اسلام کی نورانی تعلیمات پر مبنی انسانی حقوق کے ارتقاء اور حمایت پر یقین رکهتے ہوۓ اپنے شہریوں اور بین الاقوامی معاشرتی ذمہ داریوں کی ہمیشه پابندی کی ہے اور اپنے ملک کے عوام پر بهروسه کرتے ہوۓ گذشته چالیس سالوں میں پیهم اور متنوع غیر ملکی یلغار اور غیر منصفانہ مسلسل دباؤ کو برداشت کیا اور کر ر ہی ہے.
ایرانی عوام امریکا کی طرف سے وسیع، ظالمانہ اور یکطرفہ طور پر ٹھونسی گئی ایسی پابندیوں کا شکار ہیں جن سے عالمی انسانی حقوق کی اقدار مٹ جاتی ہیں اور انکی زد میں معاشرے کے سب سے زیاده متاثر ہونے والے افراد، جیسا عورتیں بچے بوڑھے اور وه لوگ آتے ہیں جنہیں صحت و علاج کی خدمات اور دواؤں اور غذا کی ضرورت پیش ہے . یه سب اقدامات شہریوں کو سزا دینےکی کوشش اور بین الاقوامی قوانین اور انسان دوستی کے جملہ قوانین کی کهلی خلاف ورزی ہے.
ایرانی قوم یه توقع کر ر ہی تهی که ہائی کمشنر کے ترجمان کسی بهی طرح کے نتیجہ تک پہنچنے سے پہلے، امریکی حکام کے کردار و مداخلت خصوصا امریکی وزیر خارجہ کے ان احتجاجی مظاہروں کو هنگاموں اور تشدد میں تبدیل کرنے سے متعلق بیانات کی پرزور طور پر مذمت کرے گا.
یه واضح ہے که اسلامی جمہوریہ ایران احتجاج کو عوام کا حق سمجهتی ہے اور پر امن احتجاج کو تسلیم کرتی ہے اور احتجاجی جلسوں سے متعلق غیر مبہم، ریلیف اور ضمانت پر مبنی قوانین و ضوابط رکهتی ہے. لیکن ہنگامه کرنے والوں اور امریکا اور دوسرے ممالک کی مداخلت و انتظام کے زیر اثر مسلح کاروائیوں کے ذریعہ معصوم شہریوں کے قتل عام، لوگوں کی املاک کی تباہی، بنکوں اور دوسری عمارتوں کو نذر آتش کرنے اور لوٹ مار کا ارتکاب کرنے والوں کا حساب بالکل الگ بات ہے.
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا که جن ممالک نے ان ہنگاموں اور متشدد کاروائیوں کی حمایت کی ہے، انہیں اپنے اقدامات کی ذمہ داریوں کو قبول کرنا چا ہیۓ.
یه امر نہایت افسوس ناک اور تعجب خیز ہے که انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے ترجمان نے اپنے بیان میں احتجاج کو ہنگاموں اور تشدد آمیز کاروائیوں میں تبدیل کرنے کی سازش کو نظر انداز کرتے ہوۓ حقیقت سے دور واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے. اس کے ساتھ ہی عوام کے ایک ایک فرد کے آرام اور سلامتی سے متعلق حکومت کی ذمہ داری کو بهی نہیں دیکها گیا ہے. ہمیں اطمینان ہے که ترجمان انسانی حقوق کے ہائی کمشنر لوگوں کی املاک کو نذر آتش کرنے، ہنگامہ برپا کرنے، امن و امان کو بگاڑنے جیسے اقدامات کو پرامن احتجاج کا مصداق نہیں سمجهتے ہیں.
اسلامی جمہوریہ ایران سب کیلۓ بنیادی آزادیوں، انسانی حقوق کے احترام اور ترویج کے مقصد کیلۓ، قومی سطح پر یا بین الاقوامی سطح پر عالمی، اقتصادی، ثقافتی، معاشرتی اور سیاسی مسائل کے حل کیلۓ تعاون اور تعمیری مکالمے کی اہمیت پر بهر پور یقین رکهتی ہے.
اسلامی جمہوریہ ایران مغربی ایشیا کی سب سے بڑی اور اہم ترین جمہوریت ہے اور اس میں اقتدار کے تمام ارکان عوام کی براہ راست یا بالواسطه ووٹ کے ذریعہ تشکیل دیۓجاتے ہیں. اس وقت بهی قومی اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں. یه اسمبلی ملک میں قانونسازی کا واحد اداره ہے. ملک کے قوه مجریہ، عدلیہ اور دوسرے ارکان اور امور مملکت کے جملہ ذرائع پر نگرانی، محاسبہ اور ترمیم کے مکمل اختیارات اس اسمبلی کو خاصل ہیں. اسلامی جمہوریہ ایران میں انتخابات بهرپور تحرک اور خوشی کا موقع اور سنجیده اور وسیع مقابلے اور شاندار عوامی شراکتداری کا مظهر ہوتے ہیں.
کیسے اور کیونکر اسقدر اہمیت کا حامل موقع، جس میں تمام امور سے متعلق عوام کی راۓ کو فوقیت حاصل ہوتی ہے، ہائی کمشنر کے بیان کو جاری کرنے والوں کی نظر سے اوجہل رہا ہے؟ کیا مقابلے اور دہڑےبندی کے میدان کو مختلف پارٹیوں اور دہڑوں کے درمیان مکالمے، مذاکرات اور تعامل کےعلاوہ بهی کچھ کہا جا سکتا ہے؟ البتہ یہ کسی سے مخفی نہیں ہے کہ امریکا، یورپ کے بڑےممالک اور ان کے علاقائی پٹھو جو خطہ کےتیل اور دوسرے ذخایر کی لوٹ مار کیلۓکٹھ پتلی آمریت قائم کرنیکےدر پے ہیں، ان کیلۓ ایسی طاقتور موثر اور کامیاب جمہوریت کا ظہور، اپنے ناجائز مفادات کیلۓ بڑا خطره تصور ہوتا ہے. اسلۓ انتخابات کے عمل کو مخدوش بنانے اور اس کا عالمی چہرہ مسخ کرنیکی کوششوں میں جتے ہیں اور اب تک اللہ تعالی کی مہربانی سےکامیاب نہ ہوۓاور مستقبل میں بہی انشااللہ نہ ہونگے.
ہائی کمشنر انسانی حقوق کے بیان میں انٹرنٹ منقطع ہونے پر تشویش کا ذکر کرتے ہوۓ، آزادی اور اطلاعات تک رسائی کے حقوق کی خلاف ورزی تصور کیا گیا ہے. جبکہ ملک میں انٹرنٹ کی سروس ہرگز منقطع نہیں کی گئی اور عام شہری اپنے قومی نٹ ورک کے ذریعہ آسانی کے ساتھ ایک دوسرے ساتھ رابطہ میں رہےاور انہیں جملہ اطلاعات تک رسائی دستیاب رہی ہے.
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایسا لگ رہا ہے کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ فقط وہ انفارمیشن جو کہ مغربی ذرائع ابلاغ میں "مدعی” سے نقل کر کے بیان ہو وہ "انفارمیشن” تصور کی جاتی ہے! کیونکر مغربی اور یورپی سوشل میڈیا کا عوام کو تشدد، قتل عام، افواہ سازی اور ذہنوں کو پریشان کرنے پر اکسانے اور حوصلہ افزائی کیلۓ تخریبی کردار کو "اطلاعات تک رسائی” کا نام دیا جاتا ہے؟ کیا اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کیلۓ کسی کی سوچ، نفسیات اور شخصی اور اجتماعی زندگی پر اس حد تک یلغار انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟
بدیهی طور پر عام لوگوں، انتظامی قوتوں کے خلاف، پبلک اور پرائیویٹ املاک کو نقصان پہنچانے کیلۓ اسلحے اور تشدد کا استعمال قانونی ذمہ داریوں کا باعث ہے. مقامی اور بین الاقوامی قوانین میں مسلح اور پر تشدد مظاہروں کا کوئی جواز بیان نہیں کیا گیا ہے.
حالیہ واقعات میں کوئی بهی پرامن احتجاج کی وجہ سے گرفتار نہیں کیا گیا ہے. انتظامی فورسز نے معاشرے میں امن و امان کے ذمہ دار کے طور پر تربیتی عمل کے تسلسل کی بدولت غیر معمولی برداشت کا مظاہرہ کیا ہے. یہاں تک کہ ہنگامہ خیز گروہوں کی طرف سے آتشین اسلحہ کا استعمال ہوا اور انتظامی فورسز کے کچھ جوان شہید اور زخمی ہوۓ.
حالیہ واقعات کے متعلق غیر ملکی اور دنیا کے بدی کے محور ممالک کے میڈیا کی طرف سےہلاک ہونیوالوں اور عوام کو پہنچنے والےنقصانات کے بارے میں غیر مستند اور بے بنیاد اطلاعات پهیلائی گئیں، جن میں سے کسی ایک کی بهی تصدیق نہیں کی جا سکتی ہے. لہذا شفافیت کی ضرورت کے پیش نظر جانی و مالی نقصانات کے تخمینے کیلۓ مجلس شورای اسلامی (قومی اسمبلی) میں موجود عوامی نمایندوں اور جوڈیشری کی طرف سے تحقیقات کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے اور وہ عوام کو ہونے والے نقصانات کے درست اندازے اور ازالےکیلۓ پرعزم ہیں.
ترجمان انسانی حقوق ہائی کمشنر اور بعض دیگر بیان جاری کرنیوالے رپورٹرز سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ ایسے ممالک جنکا مقصد یکطرفہ پابندیوں کی پالیسی کے ذریعہ عوام، خصوصا ان عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور ایسے افراد جنہیں صحت اور معالجہ اور دواؤں اور غذا کی شدید ضرورت کےخلاف دباؤ بڑھانا ہے، ان کے ذرائع ابلاغ کی طرف سے شایع کردہ غلط معلومات اور جلد بازی پر مبنی فیصلوں سے مکمل اجتناب کریں.
یہ بات افسوسناک ہے کہ ترجمان انسانی حقوق کمشنر اور دوسرے بیان جاری کرنیوالے وقایع نگاروں کا موقف ہنگامہ پرور اور ملت کے حقوق کے مجرموں کی حمایت میں سامنے آیا ہے. انکے بیانات امریکی صدر اور وزیر خارجہ کے جانبدارانہ، یکطرفہ اور مداخلت آمیز اظہارات کی یاد دلاتے ہیں . وہ لوگ ایسے حالات میں تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ جان بوجھکر تخریبی عناصر کی طرف سے عوام کی املاک کو نقصان پہنچانے، امن و امان کی پایمالی، معصوم عوام عورتوں، بچوں کو قتل اور زخمی کرنے کےاقدامات سےمنہ پهیرتے ہوۓ، اسکی طرف معمولی اشارہ بهی نہیں کیا ہے.یہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی سطح پر جهوٹے دعویدار انٹرنٹ پر پابندیوں پر انتقاد اور تشویش کا اظہار کرتے ہیں، اور تشدد کے فروغ، تخریب کاری کے ایجنڈےاور کاروائیوں پر آنکہیں بند کر کے ایک طرح سے ان عناصر کے شانہ بشانہ کهڑے ہوتے ہیں.
اس طرح کا موقف نہ صرف انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے عائد ذمہ داریوں سے انحراف اور مخصوص طریقہ کار ہے . بلکہ ان کے وقار اور حیثیت کو داغدار بناتا ہے.
نوٹ: قابل ذکرہے کہ ایران میں انسانی حقوق تنظیم عدلیہ کی ذیلی تنظیم ہے جو کہ سن 1985 میں قائم کی گئی ہے.