google-site-verification=jrFRO6oYNLK1iKh3HkH_yKgws4mFcOFcPvOCyqbqAnk
Pakistan's Premier Multilingual News Agency

مستقبل کی سیاست

تحریر: حیدر خان

سن 2013 اور 2018 کے ملکی انتخابات سے حکومتیں تبدیل ہوئی اور نئ حکومتیں قائم بھی ہوئی۔ یہ حکومتیں کیسے تبدیل ہوئی ، انتخابات میں شفافیت کتنی تھیں ایک الگ روخ ضرور ہے لیکن عملی  طور پر یہ حکومتیں آئینی طریقے کار سے تبدیل ہوئی۔

جہاں ایک اسمبلی سے دوسری اسمبلی تک کا سفر ایک آئینی شق کے تحت تبدیل ہوئی وہی اس ملک، پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی اور اعوان کی تکمیل کا پہیہ بھی چلنے لگا۔ پاکستان 75 سالہ دور میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت انتخابات کے ذریعے وجود میں لایا گیا۔  

لیکن جہاں دنیا موثر نظام اور جمہوریت کی مضبوطی کی بات کرتی ہے پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی پارٹی کے سربراہ سے مشابہت رکھتی ہے 2013 سے ہی پاکستان میں جمہوریت کی ایک الگ پہچان بنے لگی جسکی ایک بڑی وجہ عمران خان تھے۔ عمران خان نے 2013 کے الیکشن میں چار حلقوں پر بددیانتی کی شکایت کرتے ہوئے 126 روز کا ڈی چوک اسلام آباد میں دھرنا دیا اور یہ دھرنا پسے پردہ قوتوں کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

جہاں نواز شریف اور زرداری پسے پردہ قوتوں کے خلاف جنگ لڑی رہے تھے وہی عمران خان وزیراعظم بنے کے خواب سجائے بیٹھے تھے۔ بلآخر ان قوتوں اور عدالتوں کی بددیانتی اور غیر مخلصانہ آئینی تقاضوں کے زریعے نواز شریف کو نااہل کیا گیا۔ یوں کہا جائے کہ یہ فیصلہ عدالت میں نہیں بلکہ خفیہ ملاقاتوں اور ٹیلی فونز پر ہوتے رہے تو غلط نہ ہوگا۔ 

نواز شریف کے نااہل قرار دیا جانا اس ملک کے آئین کے لیے لمحہ فکریہ تھا جسکو شاہد اس وقت کم ہی لوگ سمجھ سکے۔ ملکی اداروں کے ایسے باوقار فیصلہ 1990 کی دہائی میں دیکھنے کو ملتے ہے جس سے حکومتیں ایک لڑکی کی چادر کی طرح بدلتی رہتی تھی اور ایسے پھر مارشلہ بھی لگتے رہے۔

پاکستان کا آئین سب پر لاگو ہوتا ہے سواۓ کچھ اداروں اور اجکل عمران خان کے۔ عمران خان کو پچھلے کچھ دنوں سے عدالتیں طلب کرتی رہی لیکن عمران خان کے وکیل کی جانب سے ان پر ہوۓ حملے میں زخمی ہونے کی بنیاد پر  انکی حاضری سے انکار کرتے رہے ۔بلاخر آج عمران خان عدالت تو ضرور پہنچے لیکن ٹال مٹول سے پھر کمرہ عدالت میں وقت پر نہ پہنچ سکے ۔ اس دوران عمران خان کے وکیل کی جانب سے عمران خان کی گاڑی میں ہی بیٹھے ہوئے حاضری لگانے کی پیشکش کی گئی۔ لاہور ہائی کورٹ میں عمران خان کی حاضری کے موقع پر ہجوم اکھٹے ہونے کی ایک وجہ پاکستان تحریک انصاف کے ٹوئٹر پیج کی جانب سے کارکنوں کو عدالت پہنچنے کی اپیل تھی جو عدالتی کارروائی میں رکاوٹ اور اثر انداز ہونے کی ایک واضح کوشش ہے۔ 

جہاں عمران خان کو توشہ خانہ ، بیٹی کو ظاہر نہ کرنے، ممنوعہ پنڈنگ، انتشار پیدا کرن اور جعلی دستخط کے باوجود آج تک نہ گرفتار ہوسکے نہ ہی نااہل قرار کیا جا سکے بلکہ اب بھی عدالت ہی سے ریلیف دینے کی روایت جاری ہے وہی اس ملک میں علی وزیر کو سالوں سال عدالتی ضمانتوں کے باوجود چند دن پہلے تک رہا نہ کیا جا سکا۔ اور انہی عدالتوں کی ہی بدولت تین بار اس ملک کے وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھے ایک وزیراعظم کو اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نااہلی کا ہار پہنا دیا گیا۔

موجودہ حالات کے تناظر میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان جیسے ملک میں آئین کی پاسداری اور جمہوریت کی مضبوطی ایک ناممکن سا عمل نظر آتا ہے۔ جس میں میں ریاست مدینہ کے پیروکار چوری کرتے ہو، بے دریغ الزامات لگاتے ہو، عزت اچھالتے اور جھوٹ بولتے ہو لیکن ان سب کی سزا صرف غریب کی چار دیواری تک ہی محدود ہو تو اس ملک میں انصاف کی فراہمی کیسے ممکن ہو سکتی ہے  اور جہاں انصاف نہ ہو وہاں جمہوریت بھی نہیں پنپ سکتی ۔

حالیہ حالات کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اگر آنے والی نسلوں کو جمہوریت ، آئین کی پاسداری اور انصاف کا نظام قائم کر کے دینا ہے تو آنے والی نسلوں کو عمران خان اور اسکے طریقہ سیاست سے دور رکھے۔ اگر یہ وقت 1990 کا ہوتا تو یاہی بات نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے لیے بھی کہی جاسکتی تھی ۔ غالباً آج کے دور کا عمران خان 1990 کی دہائی کی سیاست سے ہی سیکھ کر آگے آیا جس کے خدو خال انکے طرظہ سیاست میں بھی نظر آتے ہے۔ 

اس بات یہ یہ قطی مطلب نہیں کہ باقی پارٹیز جمہوریت کے علمبردار ہے لیکن ان میں سے کچھ پارٹیوں میں کم از کم ایک جمہوری جلک دیکھنے کو ضرور ملتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ آئین کی

پاسداری کے لیے ایک کوشش واضح طور پر دیکھنے کو بھی ملتی ہے۔

**گلوبل نیوز پاکستان مسائل پر کوئی مؤقف اختیار نہیں کرتا ہے اور یہاں جو خیالات پیش کیے گئے ہیں وہ مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ گلوبل نیوز پاکستان اور اس کے عملے کے خیالات کی عکاسی کریں۔

google-site-verification=jrFRO6oYNLK1iKh3HkH_yKgws4mFcOFcPvOCyqbqAnk