google-site-verification=jrFRO6oYNLK1iKh3HkH_yKgws4mFcOFcPvOCyqbqAnk
Pakistan's Premier Multilingual News Agency

شنگھائی تعاون تنظیم، یوریشیائی ہم آھنگی کو مضبوط کرنے کا ایک موقع

313

حسین امیرعبداللہیان

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ

 

 آج مشرق اور مغرب نے اپنا روایتی مفہوم کھو دیا ہے۔ علاقائیت اور براعظم ازم اس کی جگہ لے چکا ہے۔  تسلط پسندی اور یکطرفہ پن رو بہ زوال ہے، اور بین الاقوامی نظام کی کثیر قطبی دنیا میں منتقلی اور آزاد ممالک کے حق میں طاقت کی دوبارہ تقسیم ایک ناگزیر عمل ہے۔  ایسے میں ہمارے براعظم ایشیا میں امن کو برقرار رکھنا اور مضبوط کرنا کوئی انتخاب نہیں بلکہ ایک ضرورت ہے۔  شنگھائی تعاون تنظیم کو درحقیقت علاقائی اتحاد کی کامیاب مثالوں میں سے ایک سمجھا جا سکتا ہے۔  یہ تنظیم ہم خیال ممالک کا اتحاد ہے جو غیرعلاقائی طاقتوں کی مداخلت کے بغیر ایشیا میں ایک نئی ترتیب اور شناخت قائم کرنا چاہتے ہیں۔

 بین الاقوامی تعلقات کے میدان میں اس تنظیم کا نمایاں کردار اس وقت بہتر طور پر ظاہر ہوتا ہے جب ہم اس بات کی طرف توجہ دیں کہ دنیا کی 40% سے زیادہ آبادی شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک میں رہتی ہے اور دنیا کی مجموعی پیداوار میں ان ممالک  کا حصہ تقریبا 25 % ہے۔  تنظیم کے رکن ممالک کی معیشت کا حجم 20 ٹریلین ڈالر قرار دیا گیا ہے جس میں گزشتہ 20 سال کے مقابلے میں 13 گنا اضافہ ہوا ہے۔  چونکہ اسلامی جمہوریہ ایران تمام ممالک کے ساتھ خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے باہمی احترام سمیت بین الاقوامی قوانین کے بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مذاکرات، ڈائیلاگ اور سفارت کاری کا ہمیشہ خیرمقدم کرتا ہے اور یکطرفہ پن کو مسترد کرتا ہے، اس لیے ایرانی حکومت نے شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت کو خارجہ پالیسی کی ایک اہم  ترجیح قرار دیا اور اس سلسلے کو نئی حکومت کے بر سر اقتدار آنے کے بعد ایران کی دائمی رکنیت کے آغاز کے ساتھ جامہ عمل پہنایا گیا ۔

اس ضمن میں،عزت مآب  صدر جناب ابراہیم رئیسی  کا گزشتہ سال ستمبر میں تاجیکستان کا دورہ اور سربراہی اجلاس میں شرکت کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کی شنگھائی تعاون تنظیم میں ممبرشپ کے عمل کے آغاز کی منظوری سفارتی کامیابی شمار کی جاتی اور “متوازن، ذہین تعامل، فعال اور متحرک سفارت کاری” اور “ایشیا کی طرف دیکھنے” کی خارجہ پالیسی پر عمل کرنے میں ہمارے ملک کی سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہے۔  نیز، یہ کامیابی تمام دوطرفہ، علاقائی اور بین الاقوامی جہتوں میں تنظیم کے اراکین کے ساتھ ہمارے ملک کے تعاون اور تعلقات کی ترقی میں ایک اہم قدم ثابت ہوگی۔

 اب شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان کثیرالجہتی تعاون کی وسیع صلاحیت اور مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خطے کی اقوام کے روشن مستقبل کے لیے راستہ ہموار کر سکتے ہیں۔  یہ صلاحیتیں تنظیم اور اس کے اراکین کو سیاسی، سیکورٹی، اقتصادی، تجارتی اور ثقافتی چیلنجوں کے خلاف مزاحمت کے قابل بناتی ہیں۔ سرمایہ کاری میں سہولت فراہم کرنے اور مشترکہ اور باہمی اقتصادی تعاون کو وسعت دینے کی منصوبہ بندی جو خطے کی پائیدار ترقی اور پائیدار سلامتی کا باعث بنتی ہے سلامتی کی بنیاد فراہم کیے بغیر ممکن نہیں ہو گی۔  لہٰذا، اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے، خطے کے اہم سیکیورٹی خطرات اور چیلنجز، جیسے کہ افغانستان کی نازک صورتحال، کو فوری طور پر پڑوسیوں اور شنگھائی تعاون تنظیم کے اراکین کی توجہ میں لایا جانا چاہیے۔

 تنظیم کے تمام رکن ممالک میں بڑی اقتصادی صلاحیتیں اور متعلقہ فوائد عالمی برادری کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتے ہیں اور ممبران کے درمیان اسٹریٹجیک روابط اور زیادہ باہمی رابطوں کے منفرد مواقع پیدا کرتے ہیں۔  اسلامی جمہوریہ ایران بحیرہ کیسپین اور خلیج فارس کے درمیان واقع ہوا ہے۔ یہ جغرافیائی پوزیشن شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن اور مبصر ممالک کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کی سرزمین کو عالمی منڈیوں میں سامان اور توانائی کی منتقلی کے لیے استعمال کرنے کا امکان فراہم کرتی ہے۔ یہ شعبے ایران اور تنظیم کے درمیان اسٹریٹجیک تعاون میں فائدہ مند ہیں، اسلامی جمہوریہ ایران، یوریشیا کے مواصلاتی راہداریوں کے مرکزی اور خطے کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے مربوط لنک کے طور پر، جنوبی اور شمالی کوریڈور کے ذریعے  یوریشیا کے جنوب اور شمال کو آپس میں ملا سکتا ہے اور وسطی ایشیا اور روس کو  برصغیر سے مربوط کرسکتا ہے۔ ایران “بیلٹ اینڈ روڈ” پراجیکٹ کے ایک انتہائی اہم اور بہترین راہداری کے راستے پر واقع ہے، یعنی چین- وسطی ایشیا- مغربی ایشیا کوریڈور، اور یہ مشرق، مغرب  اور یوریشیا کے درمیان ایک مربوط پل بن سکتا ہے۔  پچھلے ایک سال میں، اس راستے کو ریل یا مشترکہ راستے کے طور پر فعال کیا گیا ہے۔  اسلامی جمہوریہ ایران خطے اور عالمی برادری کے ایک ذمہ دار رکن کی حیثیت سے علاقائی تعاون کے لیے بہت سی صلاحیتوں کا حامل ہے۔  ان میں  پائیدار امن اور استحکام،  توانائی کے بھرپور وسائل، منفرد سیاحتی مقامات، جغرافیائی اور قومی یکجہتی کا ملاپ، تنظیم کے رکن اور مبصر ممالک کے ساتھ وسیع تاریخی اور ثقافتی رشتے اور اس کے ساتھ بھرپور ثقافت جو انتہا پسندانہ افکار کی علاقے میں افزائش کی روک تھام  کرتی ہے، خاص اہمیت کے حامل ہیں۔

 ایرانی برآمدات کی اہم آٹھ منڈیوں میں اس تنظیم  کے ممبر ممالک چین، بھارت اور پاکستان بالترتیب پہلے، پانچویں اور آٹھویں نمبر پر ہیں اور ایران کے درآمدی شراکت داروں میں چین اور بھارت پہلے اور چوتھے نمبر پر ہیں۔

2021  میں شنگھائی تعاون تنظیم کے ممبران کے ساتھ ہمارے ملک کی تجارت 37 ارب 168 ملین ڈالر تک پہنچ گئی جو کہ ملک کی کل غیر ملکی تجارت کا تقریباً 30 فیصد ہے۔  اس تنظیم کے رکن ممالک کو ایران کی برآمدات کا حصہ 20 ارب 596 ملین ڈالر تھا اور شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک سے ایران کی درآمدات 16 ارب 572 ملین ڈالر تھیں۔

علاقائی حکومتوں کے ساتھ تعلقات اور تعاون کو بہتر بنانا، خاص طور پر نقل و حمل اور ٹرانزٹ لائنوں کو مضبوط اور آسان بنانے کو، ڈاکٹر رئیسی کی حکومت کی پالیسیوں میں اولیت حاصل ہے ہے۔  شمال اور جنوب کے راستے پر محفوظ، مستحکم اور قابل اعتماد لائنوں کی تشکیل اور جنوبی بندرگاہوں بالخصوص چابہار کی سمندری بندرگاہ میں فعال انفراسٹرکچر کا استعمال، علاقائی تعاون کی ترقی اور پڑوسی ممالک کے ساتھ متحرک تجارتی تبادلوں کی توسیع کے لیے ایران کی اسٹریٹجیک پالیسیوں میں سے ایک ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم میں اسلامی جمہوریہ ایران کی رکنیت، آئین میں درج اسلامی انقلاب کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، ملک کی آزادی کا مظہر ہے اور وقار، حکمت اور مصلحت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمارے ملک کے مفادات کو پوری کر سکتی ہے. اس سلسلے میں، گزشتہ ایک سال کے دوران، وزارت خارجہ نے دیگر متعلقہ ملکی اداروں اور شنگھائی تعاون تنظیم کے سیکرٹریٹ کے ساتھ  ضروری ہم آہنگی کے لیے اپنی تمام فنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی کوشش کی تاکہ جامع رکنیت کے قانونی اور انتظامی عمل کو کم سے کم وقت میں مکمل کیا جا سکے۔

 شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے جناب ڈاکٹر رئیسی کے ازبکستان کے دورے کو اسلامی جمہوریہ ایران کی یوریشیائی سفارت کاری کو آگے بڑھانے کا ایک اہم موقع سمجھا جاتا ہے۔ اس سفر کے دوران ایران اور ازبکستان کے سربراہان کی موجودگی میں تعاون کے 17 دستاویزات پر بھی دستخط ہوں گے جن کی بڑی اہمیت ہے۔ اس موقع پر ایرانی وفد کی شہر ثمرقند میں موجودگی جو کہ فارسی شاعری کے باوا آدم، رودکی کی جائے پیدائش ہے ایرانی وفد کی خوشی کو دو چند کر دے گی۔

 

 

 

google-site-verification=jrFRO6oYNLK1iKh3HkH_yKgws4mFcOFcPvOCyqbqAnk