
عزت کے نام پر تشدد اور جمہوری آزادیوں کےخلاف ان کی جدوجہد آج بھی زندہ ہے، ڈاکٹر عابد اور دیگر کا خطاب
اسلام آباد : فہمیدہ ریاض مزاحمتی ادب کی ایک ایسی علامت تھیں جنہوں نے مذہبی آمریت کے خلاف بلند آواز میں احتجاج کیا۔ وہ نہ صرف پدرشاہی اصولوں کے خلاف کھڑی ہوئیں بلکہ ایک باغی شاعرہ سے لے کر ایک پختہ معاشرتی نقاد تک کا سفر بڑی خوبی سے طے کیا۔ فہمیدہ ریاض سندھ کی مٹی سے جڑی ایک روحانی شخصیت تھیں، جن کی تحریر اور عمل کبھی تضاد کا شکار نہیں ہوئے۔ ان کے صنفی برابری اور آزادیِ فکر جیسے ممنوعہ تصورات آج ترقی کے لازمی اہداف بن چکے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی اور احمد سلیم اسٹڈی سینٹر کے تعاون سے فہمیدہ ریاض کی زندگی، ادبی ورثے اور سیاسی مزاحمت کے حوالے سے منعقدہ ایک بصیرت افروز سمینار میں کیا۔"فہمیدہ ریاض: مزاحمت کی آواز" کے موضوع پر ہونے والی اس تقریب میں نامور سکالرز، ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں نے شرکت کی۔ سمینار کی نظامت کے فرائض احمد سلیم سٹڈی سینٹر کی سربراہ ڈاکٹر حمیرا اشفاق نے انجام دیئے۔ تقریب کا آغاز کرتے ہوئے ایس ڈی پی آئی کے سربراہ ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ یہ تقریب احمد سلیم سٹڈی سینٹر کی پاکستان کی ترقی پسند آوازوں کی وراثت کو زندہ رکھنے کے عزم کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ فہمیدہ ریاض صرف ایک شاعرہ نہیں بلکہ ایک سماجی نقاد بھی تھیں جن کے کاموں میں جنس کی شمولیت اور اظہار آزادی جیسے جدید ترقی کے معیارات کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عزت کے نام پر قتل اور دیگر سماجی ناانصافیوں کے تناظر میں فہمیدہ ریاض کا کام آج بھی اپنی اہمیت کو برقرار رکھتا ہے۔اس سیشن میں فہمیدہ ریاض کی شاعری کا بصری اور زبانی مظاہرہ پیش کیا گیا، جس سے ان کے کام کے انقلابی مواد کی گہرائی کو بخوبی اجاگر کیا گیا۔ ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ فہمیدہ ریاض نے دہائیوں قبل خواتین کی خودمختاری، عزت کے نام پر تشدد اور جمہوری آزادیوں جیسے جن مسائل کو اجاگر کیا تھا وہ آج پہلے سے زیادہ اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ ایس ڈی پی آئی کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر شفقت منیر نے بتایا کہ فہمیدہ ریاض کی شاعری نے نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) اور دیگر تحریکوں کو جنرل ضیاءالحق کے دور میں مزاحمت فراہم کی۔ وہ ایک بصیرت رکھنے والی شخصیت تھیں جن کے نظریات پر بات کرنا ایک متنازعہ موضوع ہوتا تھا لیکن آج یہ ترقی کے لازمی اصول سمجھے جاتے ہیں۔ایس ڈی پی آئی کے ایڈیٹر پبلکیشنز سیلم خلجی نے کہا کہ فہمیدہ ریاض نے ضیاءکے دور میں شدید سنسرشپ جھیلا، ان کا میگزین "آواز" بند کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کو انہوں نے جمہوریت کی موت قرار دیا جو ان کی سیاسی بصیرت اور حوصلے کا غماز تھا۔ انہوں نے ڈاکٹر حمیرا اشفاق کی بھی تعریف کی، جو احمد سلیم کی وراثت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔معروف مصنف و صحافی عمار سندھو نے فہمیدہ ریاض کو سندھ کی سرزمین سے جڑی روح قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا جلاوطنی کا دور ان کے لئے ایک چیلنج تھا جس نے ان کی اردو، ہندی، فارسی اور انگریزی شاعری کو منفرد لسانی گہرائی بخشی۔ مشہور مورخ اور ماہر تعلیم ڈاکٹر سید جعفر احمد نے فہمیدہ ریاض کو مزاحمت کی ادبی تخلیق کی کثیرالجہتی شخصیت قرار دیتے ہوئے انہیں جابرانہ حکمرانی کے خلاف جدوجہد کی علامت قرار دیا۔تعلیمی ماہر اور کالم نویس نذیر محمود نے فہمیدہ ریاض کی 80ویں سالگرہ پر ایک مکمل دن کی کانفرنس کی تجویز دی۔ انہوں نے ان کی ادبی سفر کا آغاز 1966 میں ان کی پہلی کتاب "پتھر کی زبان" سے کیا اور ان کی خاندانی تاریخ اور پاکستان کے نفسیاتی تجزیے پر بھی روشنی ڈالی۔ ممتاز شاعرہ اور مصنفہ ڈاکٹر فخرہ نورین نے فہمیدہ ریاض کو "عظیم ادبی شخصیت" قرار دیا جو نہ صرف پدرسری سماج کو کھل کر چیلنج کرتی تھیں بلکہ اپنی تحریروں میں گہرے فلسفیانہ اور روحانی پہلوو ¿ں کو بھی اجاگر کرتی تھیں۔آخر میں پروفیسر ڈاکٹر روش ندیم نے کہا کہ فہمیدہ ریاض "بیسویں صدی کے ادب میں مزاحمت کی علامت" تھیں، ان کا ترجمہ کردہ کام، خاص طور پر مولانا روم کا ترجمہ، اردو ادب میں گہری روحانی اور فلسفیانہ جہتیں متعارف کراتا ہے۔ سمینار کا اختتام ایک دلچسپ سوال و جواب سیشن پر ہوا، جس میں حاضرین نے فہمیدہ ریاض کی زندگی اور ان کے کاموں کے فکری و سماجی سیاسی پہلووں پر گہری دلچسپی ظاہر کی۔
Sohail Majeed is a Special Correspondent at The Diplomatic Insight. He has twelve plus years of experience in journalism & reporting. He covers International Affairs, Diplomacy, UN, Sports, Climate Change, Economy, Technology, and Health.