google-site-verification=jrFRO6oYNLK1iKh3HkH_yKgws4mFcOFcPvOCyqbqAnk
Pakistan's Premier Multilingual News Agency

فارسی زبان کے عظیم شاعر اور افسانہ نگار، حکیم نظامی

فارسی زبان کے عظیم شاعر اور افسانہ نگار، حکیم نظامی
تحریر: احسان خزاعی، ثقافتی قونصلر سفارت خانہ اسلامی جمہوریہ ایران، اسلام آباد

فارسی زبان کے عظیم شاعر اور افسانہ نگار، حکیم نظامی چھٹی صدی میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام الیاس، کنیہ ابو محمد اور کچھ لوگون کے مطابق ان کو نظام الدین یا جمال الدین کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ حکیم اپنے آپ کو غیب کا آئینہ اور ذکر و دم مسیح کے حامل سمجھتے تھے۔
در سحر سخن چنان تمامم کایینہ غیب گشت نامم
شمشیر زبانم از فصیحی دارد دم معجزہ مسیحی
ان کے تاریخ ولادت اور وفات کے حوالے سے مورخین میں اختلاف پائی جاتی ہے لیکن ان کے اشعار و آثار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ 530 کو پیدا ہوئے اور 614 کو دنیا سے رخصت ہو گئے۔
نظامی کی فارسی میں وجہ شہرت مخمس کی تخلیق ہے۔ ان کی مخمس کو پنچ گنج (پانچ خزانہ) سے تعبیر کی جاتی ہے۔
افسانوں کی تخلیق و ترتیب میں انہیں بہت سے شاعروں پر، جنہوں نے ان کی پیروی کی، واضح برتری حاصل۔ حکیم نظامی ایک شاندار اور قابل،شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک معروف محب وطن بھی ہیں۔ انہوں نے وطن (ایران) کے مقدس نام کے بارے میں جو اشعار لکھے ہیں وہ ان کی گرانقدر اور لافانی تصانیف میں ایک چمکتے ہوئے جوہر کی طرح ہیں۔
ان کی پہلی مثنوی، ”مخزن الاسرار”، 2260 اشعار پر مشتمل ہے۔ یہ مثنوی حکیم نظامی نے 40 سال کے ہونے سے کچھ ہی دن پہلے لکھی تھی اور اور یہ فارسی زبان کی اہم ترین مثنویوں میں سے ایک ہے اور اس میں خطبات اور حکمت پر بیس مضامین شامل ہیں۔
ان کی دوسری مثنوی خسرو اور شیریں کہلاتی ہے، جسے نظامی نے 576 میں مکمل کیا اور اس میں 6500 اشعار ہیں جو اتابک شمس الدین محمد، جہاں پہلوان ابن ایلدگز کے نظر پیش کیا گیا۔
تیسری، منظومہ لیلی و مجنون ہے جسے نظامی نے سال 584 میں لکھی جو 4700 اشعار پر مشتمل ہے۔ اس کی تالیف شروانشاہد ابوالمظفر اختان بن منوچہر کے نام ہوا ہے۔
ایک اور مثنوی بہرام نامہ یا ہفت گنبد ہے جسے شاعر نے مراغہ کے بادشاہ علاء الدین کرپ ارسلان کے نام کیا ہے۔اس مثنوی میں 5136 اشعار ہے اور بہرام گور کی کہانی کے بارے میں لکھا گیا تھا، جو کہ ساسانیوں کے مشہور کہانیوں میں سے ایک ہے۔
نظامی کی آخری مثنوی اسکندر نامہ ہے جو دو حصوں پر مشتمل ہے: شرف نامہ اور اقبال نامہ۔ یہ مثنوی اتابک اعظم ناصرالدین ابوبکر ابن محمد جہاں پہلوان کے نام ہے جو10,500 اشعار پر مشتمل ہے۔
خمسہ کے علاوہ، انہوں نے تقریباً 20,000اشعار پر مشتمل ایک دیوان بھی ترتیب دیا ہے، جن میں سے صرف کچھ ہی فی الحال دستیاب ہیں۔
نظامی کی پیدائش ایک خوشحال گھرانے میں ہوئی تھی، اور ان کے کاموں اور نظریات کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے اپنی جوانی قرآن اور مذہبی علوم سیکھنے اور اپنے دور کی فکری اور داستانی معلومات حاصل کرنے میں گزاری۔ اس نے اپنے زمانے کے علوم میں تعلیم حاصل کی اور اپنے دور کے بہت سے علوم میں انہیں مہارت حاصل تھی۔ ان کے اسی مہارت اور وسعت کی سبب انہیں حکیم نظامی کا لقب دیا گیا تھا۔
ان کی شاعری کی اسلوب بیان میں سب سے اہم خصوصیت ان کی جدت ہے۔ پانچ مختلف بحروں میں پانچ مثنوی لکھنے کی وجہ سے بڑے بڑے شعراء نیان کی تقلید کرتے ہوئے مخمس لکھی ہے۔ ان کی شاعری کے اسلوب اور ان کے ہم عصروں کو خراسانی اور عراقی اسلوب کے درمیان سمجھا گیا ہے۔ ‹ اگر ہم فارسی شاعری کو تین اسالیب یا مکاتب (خراسانی، عراقی، ہندوستانی) میں تقسیم کر لیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی اسلوب بیان میں عراقی مکتب کے خصوصیات زیادہ نمایاں ہیں۔
نظامی کا شمار ان شاعروں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی نظموں میں عوام کی عام زندگی کی تصویر کشی کی اور اپنے زمانے کے لوگوں کے اخلاق و عادات کے مکمل آئینہ دار بن گئے۔ ان کی شاعری معاشرے کے مختلف طبقات کی نمائندگی کرتی ہے اور اچھائی اور برائی، بدصورتی اور خوبصورتی کا مرکب ہے۔ اپنی تصورات کی تخلیق میں انھوں نے سماجی واقعات اور عادات کے ساتھ ساتھ اپنے زمانے کی عام خامیوں اور بدصورتیوں کو عام لوگوں کے لیے آسان، عام اور قابل فہم انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
فردوسی کے بعد، نظامی نے اپنی پانچویں مثنوی،اسکندرنامہ کے نام سے دوبارہ ترتیب دیا، جو کہ درحقیقت فردوسی کے کام کا تسلسل ہے۔ یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے: شرف نامہ اور اقبال نامہ۔ اس مثنوی کو ممدوح، عصر حاضر کے شاعر، اتابک اعظم، نصرالدین ابوبکر بن محمد جہاں پہلوان، اتابکان (جو آذربایجان سے تھے)، کے نام سے لکھا گیا ہے۔
آخری گنجینہ، نطامی کے پانج گنجینوں میں سے، اسکندر نامہ ہے جو دو حصوں پر مشتمل ہے: شرف نامہ جس کے 6800 اشعار ہے اور دوسرا حصہ اقبال نامہ یا خرد نامہ ہے جو 3700 اشعار پر مشتمل ہے جو نصر الدین ابوبکر بن محمد بن ایلدگز کے نام پر ہے۔
حکیم نظامی کے زنداگانی کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ فارسی زبان کے غیر متنازعہ ماہر اور فارسی افسانہ نویسی کے رہنما ہیں۔ سعدی کی طرح نظامی گنجوی بھی ایک خاص اور منفرد اسلوب اور طریقہ ایجاد کرنے میں کامیاب رہا۔ اگرچہ فارسی میں افسانہ نویسی کا آغاز حکیم نظامی نے نہیں کیا تھا، لیکن وہ واحد شاعر تھے جنہوں نے چھٹی صدی ہجری کے آخر تک تمثیلی شاعری کو بلند ترین سطح پر پہنچایا۔ حکیم نظامی کی موزوں الفاظ و محاورات کے چناؤ اور نئے موضوعات اور نئے مجموعے ایجاد کرنے کی انفرادیت اور ان کے اعلیٰ تخیل نے فارسی شاعری میں ایک نیا اسلوب پیدا کیا تاکہ حکیم نظامی کو ایران کے عظیم ترین شاعروں میں شمار کیا جا سکے اور ان کا نام اپنے مداحوں میں منفرد رکھا۔
نظامی فارسی ادب کا سب سے بڑا شاعر ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حکیم نظامی خوشی کے لمحات کی کمپوزنگ میں منفرد ہیں، ان کی زبان شیریں اور ان کی گفتگو خوشگوار ہے۔ جنگ کے لمحات کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے اپنی نظموں کو گیت کا رنگ دیا ہے۔ حکیم نظامی اخلاق کے پابند رہے ہیں۔ حکیم نظامی ایک صوفیانہ شاعری، سناسی اور فارسی ادب میں شعرو شاعری اور عشقیہ کہانیوں کے ماہر ہیں۔

google-site-verification=jrFRO6oYNLK1iKh3HkH_yKgws4mFcOFcPvOCyqbqAnk